Results 1 to 3 of 3

Thread: افلاس اور جرم پسندی ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up افلاس اور جرم پسندی ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    افلاس اور جرم پسندی ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    ہر دور میں انسان Ú©ÛŒ نفسی یا فکری ساخت سے ایک چیز تو بُری طرØ+ چمٹی رہی ہے ... افلاس کا خوف۔ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کا خوف انسان Ú©Ùˆ کسی بھی سطØ+ تک گراسکتا ہے اور گراتا رہا ہے۔ افلاس Ú©Û’ Ú†Ù†Ú¯Ù„ میں پھنسنے سے بچنے Ú©Û’ لیے انسان وہ سب Ú©Ú†Ú¾ کر گزرتا ہے جو اُسے Ù…Ø+ض افلاس نہیں بلکہ مکمل معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی تباہی تک پہنچادیتا ہے۔
    افلاس کا خوف بہت سے Ø+والوں سے پائے جانے والے خوف کا نتیجہ بھی ہے اور مجموعہ بھی۔ دنیا Ú©Û’ ہر انسان Ú©Ùˆ افلاس سے شدید خوف Ù…Ø+سوس ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی لوگ دوسروں سے پیچھے رہ جانے Ú©Û’ خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ افلاس ہی کا خوف ہے۔ ہم بہت کوشش کریں تب بھی اس خوف Ú©Ùˆ فکری ساخت سے نکال نہیں سکتے۔ ہاں‘ اسے قابو میں رکھنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ جاسکتی ہے اور لوگ ثابت کرتے رہے ہیں کہ افلاس Ú©Û’ خوف Ú©Ùˆ قابو میں کرنے Ú©ÛŒ کوشش کامیابی سے ہم کنار بھی ہوسکتی ہے۔
    جرم Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جانے والی ذہنیت یعنی جرم پسندی صرف اُس وقت پنپتی ہے جب افلاس کا خوف فکری ساخت Ú©Û’ تمام Ø+صوں پر قابض Ùˆ متصرف ہوچکا ہو۔ سوچ Ú©ÛŒ عمومی سطØ+ پر رہتے ہوئے انسان سہل پسندی کا مرقع ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بہت سی تبدیلیاں بس یونہی‘ خود بخود واقع ہوجایا کریں۔ یہ سہل پسندی بہت سی خرابیوں Ú©Ùˆ جنم دیتی ہے۔ سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ انسان عمل پسند نہیں رہتا یعنی کسی بھی Ø+والے سے عملی سطØ+ پر مؤثر یا مطلوب کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ یہ ایک خرابی پورے وجود Ú©Ùˆ دیمک Ú©ÛŒ طرØ+ چاٹ جاتی ہے۔ جارج برنارڈ شا کا تجزیہ یہ ہے کہ جرم پسندی اور افلاس نفسی ساخت کا ''اٹوٹ انگ‘‘ ہیں یعنی انسان ان سے چھٹکارا پانے میں بہت مشکل سے کامیاب ہو پاتا ہے۔ شا Ú©Û’ بقول دنیا بھر میں ایسے معاشرے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن میں ایک طرف جرم پسندی پروان چڑھتی رہتی ہے اور دوسری طرف افلاس Ú©Ùˆ Ú¯Ù„Û’ لگائے رہنے Ú©ÛŒ ذہنیت بھی پنپنے سے باز نہیں آتی۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ لوگ ایک طرف تو افلاس سے ڈرتے ہیں اور دوسری طرف اُس سے جان چھڑانے Ú©Û’ معاملے میں سنجیدہ بھی نہیں ہوتے۔ یہی وہ دو دھاری تلوار ہے جو معاشروں Ú©Ùˆ ذبØ+ کرتی رہتی ہے۔
    افلاس سے بچنا ہر دور Ú©Û’ انسان کا مسئلہ رہا ہے۔ عمومی سطØ+ پر زندگی بسر کرنا گزرے ہوئے ادوار میں Ú©Ú†Ú¾ زیادہ دشوار یا پریشان Ú©Ù† نہ تھا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مجموعی طور پر سب Ú©Ú†Ú¾ تھما ہوا تھا۔ ایک طرف ترقی Ú©ÛŒ رفتار تھمی ہوئی تھی جس Ú©Û’ نتیجے میں ایجادات اور اختراعات Ú©ÛŒ گرم بازاری نہ تھی۔ یہ گرم بازاری نہ تھی تو لوگوں میں بہت Ú©Ú†Ú¾ پانے Ú©Û’ Ø+والے سے طمع کا گراف بھی بلند نہ ہوا تھا۔ دوسری طرف معیشت کا پہیہ بھی اندھا دھند نہیں گھومتا تھا‘ بلکہ سب Ú©Ú†Ú¾ ایک خاص Ø+د میں رہا کرتا تھا۔ لوگ کمانے Ú©Û’ لیے مشین کا جُز نہیں بن جایا کرتے تھے۔ اس Ú©Û’ نتیجے میں زندگی خاصی تھمی ہوئی اور پرسکون ہوا کرتی تھی۔ اشیا اور خدمات Ú©Û’ مہنگے ہوتے جانے Ú©ÛŒ رفتار اتنی Ú©Ù… تھی کہ لوگوں Ú©Û’ لیے خاصی Ù†Ú†Ù„ÛŒ سطØ+ پر زندگی بسر کرنا بھی دکھ کا باعث نہیں ہوا کرتا تھا۔ لوگ Ú©Ù… آمدن Ú©Û’ ساتھ بھی معقول Ø+د تک پرسکون زندگی بسر کرنے میں کامیاب رہتے تھے۔ گھر میں دنیا بھر Ú©ÛŒ اشیا جمع کرنے کا شوق زیادہ پروان نہیں چڑھا تھا‘ کیونکہ بازار میں اشیا Ùˆ خدمات کا غیر معمولی تنوع ناپید تھا۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں افلاس سے بھی بڑھ کر پایا جانے والا خوف ہے Ù…Ø+روم رہ جانے کا۔ ہر شعبے میں غیر معمولی تکنیکی ترقی Ù†Û’ اشیا اور خدمات کا تنوع اس قدر بڑھادیا ہے کہ لوگوں Ú©Û’ لیے کسی ایک مقام پر رُک کر زندگی کا جائزہ لینا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ آج کا انسان اپنے اطراف جو Ú©Ú†Ú¾ بھی دیکھ رہا ہے وہ سب Ú©Ú†Ú¾ اپنے گھر اور زندگی میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ وسائل Ú©Ùˆ ذہن نشین رکھے بغیر سوچنے اور خواہش کرنے Ú©ÛŒ عادت پختہ ہوچکی ہے۔ یہ عادت انسان Ú©Ùˆ بہت سے معاملات میں اس قدر الجھا دیتی ہے کہ سلجھنے Ú©ÛŒ گنجائش گھٹتی Ú†Ù„ÛŒ جاتی ہے۔ آج کا انسان شدید الجھن میں مبتلا ہے۔ وسائل Ú©ÛŒ بہرØ+ال ایک Ø+د ہے ‘مگر جو Ú©Ú†Ú¾ زندگی Ú©Ùˆ آسان بنانے Ú©Û’ لیے بازار میں دستیاب ہے اس Ú©ÛŒ کوئی Ø+د مقرر نہیں۔ ایسے میں ہر انسان اپنے وجود پر غیر معمولی دباؤ Ù…Ø+سوس کر رہا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہار مان Ù„Û’Û” بہت سے معاملات میں ہمیں فطری تقاضوں Ú©Û’ خلاف جانا پڑتا ہے۔ اور جانا ہی چاہیے۔ دل بہت Ú©Ú†Ú¾ مانگتا ہے۔ جو Ú©Ú†Ú¾ دل مانگے وہ سب کا سب پانے Ú©ÛŒ کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہر معاملے میں معقولیت کا دامن تھام کر چلنا ہی ہمارے انفرادی Ùˆ اجتماعی مفادات کا تØ+فظ یقینی بنا سکتا ہے۔
    پاکستانی معاشرے میں بدنظمی اور بدØ+واسی بڑھتی جارہی ہے۔ معاشی خرابیوں Ù†Û’ معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں Ú©Ùˆ راہ دی ہے۔ کسی نہ کسی طور بہت Ú©Ú†Ú¾ پانے Ú©ÛŒ ذہنیت اس Ø+د تک پروان Ú†Ú‘Ú¾ Ú†Ú©ÛŒ ہے کہ اب اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔ لوگ ماØ+ول میں یعنی اپنے اطراف جو Ú©Ú†Ú¾ بھی دیکھتے ہیں وہ سب کا سب پانے Ú©ÛŒ آرزو کرتے ہیں۔ یہ ذہنیت انتہائی خطرناک ہے کیونکہ جب ہمیں اپنے وسائل Ú©Û’ Ù…Ø+دود ہونے Ú©Û’ باعث Ú©Ú†Ú¾ زیادہ مل نہیں پاتا تب ہم پر مایوسی طاری ہونے لگتی ہے۔ بہت Ú©Ú†Ú¾ ایسا ہے جو آج Ú©Û’ انسان سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ وسائل Ú©ÛŒ Ø+د Ú©Ùˆ زمینی Ø+قیقت Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے قبول کرنے والوں Ú©ÛŒ Ú©Ù…ÛŒ ہے۔ جب Ù…Ø+دود وسائل Ú©Û’ باعث Ú©Ú†Ú¾ زیادہ پانے Ú©ÛŒ گنجائش پیدا نہیں ہوتی تب انسان جرم پسند ذہنیت Ú©Û’ دائرے
    میں گھومنے لگتا ہے۔ اپنی صلاØ+یت اور سکت Ú©ÛŒ Ø+د جاننے والوں Ú©Ùˆ خواہشات Ú©ÛŒ بھی ایک ایسی Ø+د مقرر کرنی چاہیے جو بھرپور مطابقت رکھتی ہو۔ ایسا کرنا ہی انسان Ú©Ùˆ فکری اعتبار سے متوازن رکھتا ہے اور وہ معقولیت Ú©Û’ دائرے میں رہنے Ú©Ùˆ ترجیØ+ دیتے ہوئے جرم پسندی Ú©ÛŒ طرف بڑھنے سے گریز کرتا ہے۔
    تکنیکی ترقی Ù†Û’ بازار طرØ+ طرØ+ Ú©ÛŒ مصنوعات سے بھر دیئے ہیں مگر انسان Ú©Û’ دل Ùˆ دماغ کا کھوکھلا پن بڑھ گیا ہے۔ آج سوچنے Ú©ÛŒ عادت پروان چڑھانے اور فلسفے میں دلچسپی لینے والوں Ú©ÛŒ تعداد خاصی Ú¯Ú¾Ù¹ گئی ہے۔ اس Ø+والے سے کام کرنے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ آج Ú©Û’ انسان Ú©Ùˆ سوچ بچار Ú©ÛŒ زیادہ ضرورت ہے۔ فلسفے میں غیر معمولی دلچسپی لینے Ú©ÛŒ صورت میں فکری ساخت Ú©Ùˆ بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لوگ تکنیکی معاملات میں تو مشاورت پسند کرتے ہیں مگر زندگی ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ سے بسر کرنے Ú©Û’ Ø+والے سے مشاورت Ú©ÛŒ اہمیت زیادہ Ù…Ø+سوس نہیں کرتے۔ اس Ø+والے سے سوچ کا بدلا جانا لازم ہے۔ ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ سے زندگی بسر کرنے Ú©Û’ لیے وسائل Ú©ÛŒ Ø+دود میں رہنا اب ناگزیر ٹھہرا ہے۔ ہر معاملے میں شدید Ù…Ø+رومی Ù…Ø+سوس کرنا دل Ùˆ دماغ Ú©Û’ لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ متوازن فکر Ú©Ùˆ پروان چڑھانے ہی سے جرم پسند ذہنیت Ú©Ùˆ شکست دینے میں مدد ملتی ہے۔ قناعت پسندی اور دستیاب وسائل سے کماØ+قہ مستفید ہونے Ú©ÛŒ ذہنیت افلاس سے خوف کھانے Ú©Û’ رجØ+ان Ú©Ùˆ بھی کمزور کرتی ہے اور انسان ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ سے جینے Ú©Û’ قابل ہو پاتا ہے۔

    2gvsho3 - افلاس اور جرم پسندی  ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: افلاس اور جرم پسندی ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    2gvsho3 - افلاس اور جرم پسندی  ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

  3. #3
    Join Date
    Mar 2018
    Location
    Pakistan
    Posts
    2,428
    Mentioned
    9072 Post(s)
    Tagged
    3539 Thread(s)
    Rep Power
    9

    Default Re: افلاس اور جرم پسندی ۔۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    Quote Originally Posted by intelligent086 View Post
    @intelligent086
    Thanks 4 informative and useful sharing
    ،

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •